سات اکتوبر کی جنگ کے بعد مذاہب کے درمیان نفرت
ختم کرنے کیلئے کچھ افکار
دانیال روزن
صدر، امریکی یہودی کانگریس
سات اکتوبر کا بڑا سانحہ شہ سرخیوں سے تیزی سے غائب ہو رہا ہے، لیکن یہودی قوم کیلئے صدمہ اب بھی قائم ہے۔ ہم یقیناً برداشت کریں گے، جیسا کہ ہم نے تاریخ میں ظلم و ستم، عدم برداشت اور بڑے پیمانے پر تشدد برداشت کیا ہے۔ لیکن ہم نفرت کے تسلسل کو ناگزیر تسلیم نہیں کر سکتے۔ کوئی بھی لوگ، چاہے وہ یہودی ہوں یا کسی بھی قوم سے تعلق ہو، ان کی شناخت، ان کے عقیدے، یا ان کی جلد کے رنگ کی وجہ سے مصائب کا شکار ہونا انکا نصیب نہیں ہونا چاہئیے۔ مزید آفات سے بچنے کیلئے، ہمیں نفرت کی تمام بنیادی وجوہات کو ایک بار اور ہمیشہ کے لئے حل کرنا چاہئے۔
آج ہم نفرتوں کا اندھا دھند مقابلہ کرنے کا ایک فضول کھیل کھیل رہے ہیں۔ نفرت امریکی کالج کیمپس میں ظاہر ہوتی ہے، اور ہم منتظمین کو برطرف کرتے ہیں۔ نفرت مشہور فنکاروں اور کھلاڑیوں کے لبوں سے نکلتی ہے۔ ہم ان کا بائیکاٹ کرتے ہیں، اور جب نفرت، جرائم کی شکل اختیار کر لیتے ہیں – جیسے عبادت گاہوں اور یہودی قبرستانوں کی دیواروں کو خراب کرنا، اور یہودیوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف تشدد کی کارروائیاں – تو ہم مذمت کرتے ہیں اور کچھ گرفتاریاں ہو جاتی ہیں۔
لیکن ہم صرف نفرت کی علامات کا علاج کر رہے ہیں، نفرت کا نہیں۔
پوری دنیا کے قوانین نفرت کو نہیں مٹا سکتے۔ آپ اسے صرف قالین کے نیچے دھکیل سکتے ہیں۔ ہم اس وقت تک مذاکرات کر سکتے ہیں جب تک کہ ہمارے چہرے تھکاوٹ سے نیلے نہ ہو جائیں، لیکن ہم نفرت سے سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ ہم جنگ کر کے قتل کا تجربہ کر سکتے ہیں۔ لیکن امریکی خانہ جنگی نے اس نفرت کو ختم نہیں کیا جو غلامی کے ظہور کا باعث بنی۔ اسی طرح اسرائیل کی طرف سے غزہ میں اٹھائے گئے اقدامات سے اس نفرت میں کمی نہیں آئے گی جو 7 اکتوبر کے واقعات کا باعث بنی۔
اچھی بات یہ ہے کہ دنیا کے بڑے مذاہب میں نفرت کا کوئی جواز نہیں۔ دنیا کے تین عظیم مذاہب اسلام، یہودیت اور عیسائیت واضح طور پر تشدد کو ترک کرتے ہیں اور ہر مومن سے کہتے ہیں کہ ‘اپنے پڑوسی سے محبت کرو’۔ اندلس کی ریاستوں کے دور میں مسلمان، عیسائی اور یہودی سات صدیوں سے زیادہ اکٹھے رہتے تھے، اکٹھے کام کرتے تھے اور ایک ساتھ تعلیم حاصل کرتے تھے۔ لہذا، ہم جانتے ہیں کہ پرامن بقائے باہمی ممکن ہے۔
مزید یہ کہ نفرت کے کوئی فوائد نہیں۔ ڈارون کے نظریہ سے پتہ چلتا ہے کہ تعاون کرنے والے انسانی معاشرے ہی بقا کی جنگ جیت تے ہیں، نہ کہ وہ معاشرے جو محاذ آرائی سے بھرپور ہوں۔ اپنی انیسویں صدی کی کتاب ‘انسان کا نزول’ میں ڈارون نے دعویٰ کیا کہ انسانی نسلیں رحمت اور تعاون جیسی خصلتوں کی وجہ سے کامیاب ہوئیں۔ انہوں نے لکھا، “وہ معاشرے جن میں سب سے بڑے اور سب سے زیادہ ہمدرد ممبران ہوں گے وہ سب سے بہتر پھل پھولیں گے اور بہترین تولید کریں گے”۔
اس کے علاوہ، ہمارے دماغ نفرت کرنے کے لئے پروگرام نہیں ہیں. نفرت کرنا یا نہیں کرنا آپکا اپنا انتخاب ہے، آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں۔
اگر نفرت ایک سیکھا ہوا اور حیاتیاتی طور پر غیر ضروری رویہ ہے تو اس کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور اسے شکست دی جا سکتی ہے۔ یہاں کچھ افکار ہیں جنہیں مذہبی کمیونٹی (پادری اور علماء) نفرت کے خاتمے میں استعمال کر سکتے ہیں:
– – ابراہیمی خاندان کے مشترکہ ورثے کو فروغ دینا۔ عیسائی، یہودی، اور مسلم مذہبی رہنما حضرت ابراھیم علیہ السلام کے تینوں مذاہب کے مشترکہ ورثے کو اپنے خطبوں میں اجاگر کر سکتے ہیں، بلکہ اپنے اپنے منبر پر دوسرے مذاہب کے مبلغین کو مدعو کر سکتے ہیں تاکہ اس نقطہ نظر کو ہر گھر تک پہنچایا جا سکے۔
– تین بڑے عظیم مذاہب مل کر موسمیاتی تبدیلی سے نمٹ سکتے ہیں۔ دنیا میں ہر عبادت گاہ کو سولر اینرجی پر لانے کی بین المذاہب کوشش نہ صرف ماحولیاتی منظر نامے کو تبدیل کرے گی بلکہ یہ مسلمانوں، عیسائیوں، یہودیوں اور دیگر تمام مذاہب کے درمیان مشترکہ اقدار، عمل اور کامیابی کی بنیاد قائم کرے گی۔
– بہتر پیشن گوئی کرنے والے ڈیٹا ماڈلنگ اور تجزیہ ہمیں بہتر طریقے سے معاشی، ثقافتی اور سیاسی حالات کو دکھا سکتے ہیں جن میں نفرت انگیز نظریات جیسے اسلاموفوبیا اور یہود دشمنی پروان چڑھتے ہیں۔ اگر ہم کلیدی رجحانات کی بہتر نشاندہی کر سکتے ہیں، تو ہم پالیسی سازوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مذہبی رہنماؤں کو بہتر طریقے سے تیار کر سکتے ہیں۔
– فوری طور پر سوشل میڈیا اور غلط معلومات کے خطرناک ملاپ پر توجہ دیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی مذمت اور ان پر پابندی لگانا کافی نہیں ہے۔ بلکہ، ہمیں نوجوانوں کو سوشل میڈیا پر پڑھے لکھے ہونے کی بہتر تربیت کرنی چاہئے، تاکہ وہ معلومات کے بارے میں تنقیدی انداز میں سوچیں، حقیقت کو افسانے سے الگ کریں۔
نفرت کی برقراری انسانیت کو درپیش حقیقی وجودی بحران ہے۔ صدیوں سے نفرت نے ہمیں تقسیم کیا ہے، ہمیں سماجی اور معاشی ترقی سے روکا ہے، اور ظلم و ستم، تنازعات اور جنگوں کی طرف دھکیلا ہے۔ نفرت اب امریکہ اور دنیا بھر کے ممالک میں معاشروں کو تقسیم کررہی ہے۔ لیکن نفرت ایک چوائس ہے جسے ہم مسترد کر سکتے ہیں، اور یہ وہ سچائی ہے جس میں ہمارا مقدر مضمر ہے۔