گزشتہ روز امریکی یہودی کانگریس نے ایک اہم بریفنگ کا انعقاد کیا جس میں غزہ ہیومنیٹیرین فاؤنڈیشن (GHF) کے چیئرمین، فادر جونی مور نے شرکت کی۔ ایک گھنٹے پر مشتمل اس سیشن میں انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ ان کی فاؤنڈیشن کس طرح غزہ میں پرانے امدادی نظام کو پیچھے چھوڑ کر، براہِ راست جنگ زدہ علاقے میں، حماس کی فائرنگ کے سائے میں، شہریوں تک خوراک پہنچا رہی ہے، اس گیرنٹی کے ساتھ کہ حماس کو فائدہ نہ پہنچے اور صرف غزاویوں کو فائدہ ہو۔
یہ وہ کہانی ہے جو اب تک میڈیا کی توجہ سے محروم رہی ہے۔
چند اہم نکات جو میڈیا کیلئے اہم ہیں:
فادر جونی مور، جو ایک مسیحی مذہبی رہنما اور انسانی ہمدرد ہیں، نے کہا کہ ان کا یہ کام ان کے مذہبی ایمان اور اسرائیلی و عرب شراکت داری کے تجربے کا تسلسل ہے۔ انہوں نے کہا: “مسیحی ہونے کا سب سے سچا اظہار بھوکے کو کھانا کھلانا ہے۔”
اطلاعات کے مطابق حماس نے جنگ بندی مذاکرات میں GHF کے خاتمے کو شرط بنایا ہے، یہ اس بات کی تصدیق ہے کہGHF کا امدادی ماڈل حماس کے قائم کردہ پرانے نظام کو چیلنج کر رہا ہے۔
GHF اب تک 90 ملین سے زائد کھانے کے خاندانی باکسز براہ راست غزہ کے شہریوں تک پہنچا چکے ہے، بغیر حماس کے کنٹرول والے نیٹ ورک کے۔ ہر بکس میں میں ایک خاندان کیلئے ایک ہفتے کا راشن ہے۔
یہ فاؤنڈیشن تقریباً 8 لاکھ سے 10 لاکھ شہریوں تک پہنچ چکی ہے—جو غزہ کی تقریباً نصف آبادی ہے—محفوظ راستوں اور کمیونٹی ڈسٹری بیوشن ماڈل کے ذریعے۔
غزہ کے شہریوں کو حماس کو رشوت دے کر امداد لینے کی ضرورت نہیں۔ GHF کی طرف سے خوراک بلا معاوضہ دی جاتی ہے، جو غزاویوں کیلئے حیرت کا باعث ہے کیونکہ حماس ان سے پیسہ لیتی تھی۔
GHF کا ماڈل اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ امدادی سامان کا انحراف روکا جا سکے، جیسا کہ ماضی میں حماس نے دو دہائیوں تک امداد کو ذاتی فائدے کیلئے استعمال کیا۔
GHF نے ایک ایسا مسئلہ حل کیا ہے جس سے اقوام متحدہ دوچار رہی ہے: حماس کے ہاتھوں امدادی ٹرکوں کا انحراف۔ جونی مور نے GHF کے محفوظ نظام کا موازنہ اقوام متحدہ کے عالمی ادارۂ خوراک کے ایک حالیہ بیان سے کیا، جس کے مطابق حالی میں 44 امدادی ٹرک غزہ بھیجے گئے، مگر صرف 9 اپنی منزل تک پہنچے۔ “صرف پچھلے ہفتے،” مور نے کہا، “ورلڈ فوڈ پروگرام نے ایک بیان جاری کیا—جسے آپ ان کی X پوسٹ پر دیکھ سکتے ہیں—کہ 44 ٹرک غزہ گئے، لیکن صرف 9 اپنی آخری منزل تک پہنچے۔”
انہوں نے واضح کیا کہ GHF کا ایک بھی ٹرک ہائی جیک یا منحرف نہیں ہوا—یہ نظام جان بوجھ کر اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے تاکہ امداد حماس کے بجائے غزہ کے شہریوں تک پہنچے۔
فادر مور نے اقوام متحدہ اور پرانی امدادی تنظیموں سے براہ راست اپیل کی کہ وہ سیاست کو ایک طرف رکھیں اور GHF کے ساتھ تعاون کریں۔ انہوں نے کہا: “ہم نے عوامی اور نجی طور پر ان سے رابطہ کیا۔ ہم نے پیشکش کی کہ ہم ان کی امداد خود تقسیم کر سکتے ہیں۔”
انہوں نے انکشاف کیا کہ انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرش کو کئی خطوط لکھے۔ مور نے کہا: “اب میں خط لکھنا چھوڑ چکا ہوں، کیونکہ ان کا کوئی جواب نہیں آتا۔”
انہوں نے بتایا کہ سفیر سنڈی مکین نے CNN پر دعویٰ کیا کہ ورلڈ فوڈ پروگرام کا GHF سے کوئی رابطہ نہیں—حالانکہ مور کی طرف سے کئی بار ملاقات کی کوششیں کی گئیں لیکن ناکام رہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ جی ایچ ایف کے ساتھ کام کرنے کیلئے تیار نہیں اور چاہتا ہے کہ پرانے نظام پر کام ہو جس میں حماس نے اپنے ایجنٹ بٹھائے ہوئے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اقوام متحدہ کے نظام کا اصرار ہے کہ اگر UNRWA (اونروا) کو امدادی ترسیل کی قیادت کی اجازت نہ دی جائے، تو امداد کی ترسیل نہیں ہوگی۔ مور نے اس کو “سیاسی فیصلہ جس کے سنگین انسانی نتائج ہیں” قرار دیا۔
انہوں نے واضح کیا کہ UNRWA پر اعتراض صرف اسرائیل تک محدود نہیں بلکہ کئی یورپی ممالک اور امریکی محکمہ انصاف نے اس ادارے سے تعلقات یا فنڈنگ روک دی ہے، کیونکہ اس پر حماس سے روابط کے سنگین الزامات ہیں۔
GHF کے 12 مقامی فلسطینی کارکن دورانِ ڈیوٹی شہید ہو چکے ہیں، اور امریکی ٹیم کے اراکین زخمی ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود ادارہ روزانہ کی بنیاد پر امداد پہنچا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ہزاروں امدادی مواد غزہ کے اندر پڑے خراب ہو رہے ہیں، جبکہ GHF روزانہ ہزاروں باکس تقسیم کر رہا ہے۔
مور نے واضح کیا کہ “لوگ واقعی بھوکے ہیں۔ لیکن ہمیں امداد اس طریقے سے نہیں دینی چاہئے جو ظالموں کے ہاتھوں لگے۔ ہم نے ثابت کیا کہ یہ کام مختلف انداز سے ہو سکتا ہے جس میں امداد غزاویوں کے پاس جائے ناکہ حماس کے۔“
انہوں نے بتایا کہ حماس اب جان بوجھ کر مقامی بازار بند کروا رہی ہے تاکہ زیادہ بھوک دکھا کر GHF کو سبوتاژ کیا جا سکے۔
امدادی مراکز کے قریب شہریوں کی اموات پر بات کرتے ہوئے، مور نے کہا کہ “ہمارے مراکز میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔“زیادہ تر واقعات ان علاقوں میں ہوئے جہاں حماس نے ہجوم کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا”۔
انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کے مراکز کے قریب زیادہ شہری ہلاک ہوئے ہیں، مگر میڈیا اس پر خاموش ہے۔ مور نے مطالبہ کیا کہ رپورٹنگ متوازن اور منصفانہ ہونی چاہیے۔
انہوں نے رٹجرز یونیورسٹی کی ایک تحقیق کا حوالہ دیا جس کے مطابق GHF سے متعلق 80 فیصد میڈیا کوریج حماس کے فراہم کردہ مواد پر مبنی تھی، اور صرف 49 فیصد نے یہ ظاہر کیا۔ مور نے کہا: “کسی اخباری ہیڈ لائن نے حماس کو کسی چیز کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا، ساری ذمہ داری ہمارے سار ڈالی جا رہی ہے”۔
انہوں نے کہا: “ہم اس لئے کام کرتے ہیں تاکہ لوگ زندہ رہیں۔ کوئی بھی غزہ کا شہری صرف خوراک حاصل کرنے کی کوشش میں اپنی جان نہ گنوائے۔”
اس سیشن میں دیگر مقررین بھی شامل تھے:
دانیال روزن، صدر امریکی یہودی کانگریس، جنہوں نے زور دیا کہ بغیر احتساب کے امداد دہشتگردی کو تقویت دیتی ہے۔
طوبی دورفمن، صدر عالمی صہیونی تنظیم، اور عساف وائس، نائب صدر امریکی یہودی کانگریس، جنہوں نے یاد دہانی کروائی کہ غزہ میں 50 اسرائیلی یرغمالی اب بھی موجود ہیں، اور یہ ایک اپنی نوعیت کی انسانی بحران ہے۔
فادر مور نے اپنی گفتگو کا اختتام دو پرانے معروف تاریخی یہودی اقوال پر کیا:
“جہاں کوئی قائد نہ ہو، وہاں خود قائد بنو۔”
“تم پر فرض نہیں کہ کام مکمل کرو، لیکن یہ بھی تمہیں حق نہیں کہ کام چھوڑ دو۔”
ویبینار دیکھنے کیلئے یہاں کلک کریں اور خود سنیں کہ فادر جونی مور اور دیگر مقررین نے کیا کہا۔




